Horror Story Horror Tale
انتباہ۔۔۔۔۔۔۔۔
براہ مہربانی کمزور دل افراد اس کہانی کے ساتھ منسلک وڈیو کو دیکھنے سے گریز کریں۔۔ورنہ نتائج کے ذمہ دار ہم نہ ہوں گے
تیرہویں منزل ، پرُ ہول سناٹا اور بھٹکتی روح
تحریر : علینہ عرفان
یہ واقعہ جس کے ذریعے معلوم ہوا اس شخص نے اپنا نام نہ ظاہر کرنا کا
وعدہ لیا ہے۔۔۔ اس لیے میں ان کا نام ظاہر کیے بغیر آپ کو ان کے ساتھ ہونے
والی یہ آپ بیتی بتا رہی ہوں۔۔۔۔ جس شخص کے ساتھ یہ
واقعات پیش آتے ہیں میری جانب سے ان کی بہادری کو سات سلام ہیں۔۔۔۔۔وہ
تقریباً روز ہی ان واقعات کے چشم دید گواہ بنتے ہیں۔۔۔۔یہ سننے کے بعد ہی
میں ان کی بہادری کی قائل ہوئی ہوں۔۔۔۔
تو آئیے بڑھتے ہیں اس سو فیصدی سچے قصے کی جانب۔۔۔جانتے ہیں ان ہی کی زبانی جو اس سب کو جھیل رہے ہیں۔۔۔۔۔
میں کراچی کا رہنے والا نہیں ہوں۔۔لیکن روزگار کے سلسلے میں مجھے کراچی
آنا پڑا۔۔۔کئی جگہ نوکری کے لیے درخواستیں دیں لیکن کام کچھ بن نہیں پا رہا
تھا۔۔۔۔میں مایوس ہو ہی رہا تھا کہ اچانک مجھے ایک جگہ سے انٹرویو کی کال
آئی ۔۔۔۔میں وہاں گیا۔۔۔انٹرویو ہوا اور میرا سیلکشن بھی ہو گیا۔۔۔۔۔میں جو
ناامیدی کے سمندر میں غوطے لگا رہا تھا اچانک ملنے والی اس خوشی سے مسرور
ہو گیا۔۔۔لیکن میں یہ نہیں جانتا تھا کہ میری یہ خوشی عارضی ثابت ہونے والی
ہے۔۔۔۔ کراچی کے رہائشی شاید اس عمارت سے واقع ہوں جہاں میری جاب لگی
تھی۔۔۔لیکن میں چونکہ یہاں کا نہیں ہوں اس لیے جان نہیں پایا کہ میں شیر کی
کچھار میں جا رہا ہوں۔۔۔۔۔
کراچی کی مصروف سڑک شاہراہ فیصل پر واقع اس عمارت میں میرا آفس تھا۔۔۔(اس عمارت کا نام ظاہر کیے بناء ہی کئی لوگ سمجھ جائیں گے کہ ہم کس آسیبی عمارت کی بات کر رہے ہیں) ۔۔۔میں نے جب کراچی میں اپنے چند دوستوں سے اس بات کا ذکر کیا کہ میں فلاں عمارت کے ایک آفس میں بھرتی ہوا ہوں تو انھوں نے مجھے ایسا دیکھا جیسے میرے سینگ نکل آئے ہوں۔۔۔۔بس پھر کیا تھا ۔۔۔اس عمارت کے آسیبی ہونے کے بارے میں مجھے وہ وہ کچھ سننے کو ملا کہ اللہ کی پناہ۔۔۔۔ مجھے لگا کیونکہ لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ وہ کسی کا کوئی کام بنتا دیکھ کر اسے فضول میں شش و پنج میں مبتلا کر دیتے ہیں تو شاید میرے دوست بھی میرے ساتھ ایسا ہی کر رہے ہیں۔۔۔۔لیکن میں یہ نہیں جانتا تھا کہ کچھ عرصے بعد میں خود ان آسیبی واقعات کا چشم دید گواہ بن جاؤں گا۔۔۔۔
وہ آفس میں میرا پہلا دن تھا۔۔پہلے تو مجھے یہ دیکھ کر ہی حیرانی ہو رہی تھی کہ میرے آفس میں کام کرنے والے تقریباً سب ہی پکی عمروں کے حامل افراد ہیں۔۔۔۔میری عمر کا وہاں کوئی موجود ہی نہیں تھا۔۔۔یہ دیکھ کر دل کو ذرا دکھ ہوا کہ یہاں ہم عمر سے دوستی کا کوئی امکان نہیں۔۔۔۔۔
میری جاب کے اوقاتِ کار رات کے ہیں۔۔۔۔چنانچہ میں شام کے وقت ہی آفس پہنچا۔۔۔آفس میں ہم کلُ چھ سے سات لوگ ہی تھے۔۔۔نئی جگہ اور نئے ماحول میں آدمی ویسے ہی گھبرا جاتا ہے ۔۔۔لیکن میرے پہلے ہی دن گھبرا جانے کی وجہ اور ہی تھی۔۔۔۔میرے ایک سینیئر مجھے خوش آمدید کہنے میرے پاس آئے ۔۔۔ادھر ادھر کی باتوں کے بعد وہ اچانک گویا ہوئے۔۔۔۔
’’ میاں، تم نے اس جگہ کے بارے میں کچھ سناُ؟‘‘ان کا یہ سوال سن کر میرے کان کھڑے ہوئے ۔۔میں نے کہا۔۔۔’’ جی نہیں۔۔ آپ ہی کچھ بتائیے۔۔‘‘ تب وہ بولے۔۔۔
’’دیکھو میاں بات یہ ہے کہ تم چونکہ کراچی کے نہیں ہو اس لیے اس عمارت کے بارے میں بتانا میرا فرض ہے۔۔یہ مت سمجھنا کہ میں تمھیں ڈرا رہا ہوں۔۔میں بس تمھیں محتاط رہنے کا کہہ رہا ہوں۔۔بات اصل میں یہ ہے کہ یہ عمارت اور خاص طور پر تیرہواں فلور آسیبی تصور کیے جاتے ہیں۔۔۔۔کیونکہ یہاں متعدد ایسے واقعات ہو چکے ہیں کہ اس بات میں شک کی کوئی گنجائش نہیں نکلتی۔۔‘‘
ان کی یہ بات سن کر میں ہونق بنا ان کی صورت دیکھتا رہا۔۔۔مجھے ڈھار س دیتے ہوئے وہ بولے۔۔’’ گھبراؤ نہیں ،ہم یہاں ہی تمھارے سامنے ہیں کام بھی کرتے ہیں۔۔لیکن اس آسیب کی شیطانیوں سے محفوظ نہیں۔۔۔اس آسیب نے کسی کو نقصان تو نہیں پہنچایا ہے لیکن اپنے ہونے کا احساس ضرور دلاتی ہے۔۔۔‘‘
’’ حضرت ، مجھے پہلے اس بارے میں کیوں نہیں بتایا گیا۔۔میرے لیے تو اب یہاں کام کرنا مشکل ہو جائے گا۔۔۔‘‘ میری بات سن کر انھوں نے کہا۔۔۔
’’ ایسا کچھ نہیں ہے ۔۔ہم سب ساتھ ہی ہیں۔۔۔بس تم ذرا محتاط رہنا۔۔‘‘ اتنا کہہ کر وہ اپنی سیٹ کی جانب چل دیئے۔۔۔لیکن میں یہ سوچنے پر مجبور ہو گیا کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ یہ مجھے اس نوکری سے نکلوانے کے لیے ایسی باتیں کر رہے ہیں۔۔۔۔چلو جو ہوگا دیکھا جائے گا۔۔۔یہ سوچ کر میں نے خود کو تسلی دی اور کام میں مشغول ہو گیا۔۔۔۔
ابھی رات کے بارہ ہی بجے تھے کہ کچھ ایسا ہوا کہ میری ساری ہمت اور حوصلہ جواب دے گئے۔۔۔۔میں جو اس عمارے کے آسیبی ہونے کے بارے میں ابہام کا شکار تھا۔۔۔اب نہیں رہا۔۔۔ان صاحب کا ایک ایک لفظ صحیح تھا۔۔۔۔۔۔نہ جانے کیوں بیٹھے بیٹھے ہی مجھے شدید گرمی کا احساس ہونے لگا۔۔۔اور پھر کچھ یوں ہوا۔۔۔۔۔۔۔
میں آپ کو بتاہی چکا ہوں کہ میری ڈیوٹی کے اوقاتِ کار رات کے ہیں۔۔میں
سرویلنس ڈپارٹمنٹ میں ہوتا ہوں۔۔۔۔اور ہمارا اسٹاف سی سی ٹی وی کمرے میں
موجود ہوتا ہے۔۔۔میرے کولیگ مجھے پہلے ہی آگاہ کر چکے تھے کہ میں کبھی
تیرہویں منزل کا رُخ نہ کروں کیونکہ وہاں کوئی نہیں جاتا۔۔۔لیکن میں یہ
نہیں جانتا تھا کہ اس آسیب کے ’’درشن‘‘ کے لیے مجھے کہیں بھی جانے کی ضرورت
پیش نہیں آئے گی بلکہ وہ بذات خود مجھ سے ملنے چلی آئے گی۔۔۔۔
ہاں تو میں آپ کو بتا رہا تھا کہ رات کے بارہ بجتے ہی اچانک مجھے بڑی شدت سے گرمی کا احساس ہونے لگا۔۔۔پہلے تو میں سمجھا کہ میرا وہم ہے کیونکہ سی سی ٹی وی روم میں اے سی چل رہے تھے ۔۔لیکن جب میں نے ارد گرد نظر دوڑائی تو دیکھا میرے ساتھ کام کرنے والے تمام لوگ با آوازِبلند آیت الکرسی کا ورد کر رہے ہیں۔۔۔تب مجھے پہلی بار کسی خطرے کا احساس ہوا اور اس سے پہلے کہ میں کسی سے کچھ پوچھ پاتا۔۔۔۔اچانک کسی نے ہمارے آفس کا دروازہ زور زور سے کھٹکھٹانا شروع کر دیا۔۔۔۔اور ساتھ ہی ساتھ کسی لڑکی کے ہذیانی قہقہے سنائی دینے لگے۔۔۔۔مجھے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کیا کروں ۔۔۔کہاں جا چھپوں۔۔۔۔۔قہقہے اتنے خطرناک تھے کہ بیان سے باہر۔۔۔لگ رہا تھا کہ کوئی پوری شدت سے ہنستے ہنستے اچانک تکلیف میں کراہ رہا ہو۔۔۔
میں اور میرے ساتھ بیٹھے دیگر افراد اس وقت صرف مجسمہ لگ رہے تھے جن میں سے کسی نے جان کھینچ لی ہو۔۔۔۔ تھوڑی دیر تک یہ سلسلہ چلتا رہا۔۔۔پھر اچانک خاموشی چھا گئی۔۔۔۔۔جیسے ہی خاموشی کا یہ دورانیہ لمبا ہوا میں اپنے ان ہی کولیگ کے پاس گیا اور اس سے پہلے کہ میں ان سے کچھ پوچھتا۔۔۔وہ خود ہی کہنے لگے۔۔۔
’’ میاں تمھیں شاید میری بات پر یقین نہ آ رہا ہو۔۔لیکن اب تم کو پوری طرح یقین آ چکا ہو گا۔۔۔یہ عمارت اسی وجہ سے آسیبی مشہور ہے۔۔۔اور خاص طور پر اس کی تیرہویں منزل۔۔۔تم سے پہلے بھی اس آفس میں کئی لڑکے آئے لیکن اس بلا سے ڈر کر جاب چھوڑ کر چلے گئے۔۔۔ہم بوڑھے تو اس کے عادی ہو چکے ہیں۔۔۔۔۔اور پھر یہ بھی ہے کہ اس عمر میں ازسرِ نو نئی نوکری ڈھونڈنے کی خواری کون کرے۔۔۔‘‘ ان کی یہ بات سن کر میں نے کہا۔۔۔
’’ محترم میرا بھی آج اس آفس میں پہلا اور آخری دن ہے ۔۔۔۔میں ایسی نوکری کیسے کر سکتا ہوں جس میں مجھے جان کا خطرہ ہو۔۔۔‘‘ یہ سن کر وہ صاحب بولے۔۔۔
تم ڈرو نہیں ہمیں یہاں پر کئی سال ہو گئے ہیں۔۔۔لیکن آج تک یہاں کسی کو جانی نقصان نہیں ہوا۔۔وہ بلا ہم سب کو ڈراتی بھی ہے اور کبھی کبھی نظر بھی آ جاتی ہے۔۔لیکن نقصان آج تک کسی کو نہیں ہوا۔۔تم جذبات میں آ کر کوئی فیصلہ نہ کرو۔۔۔نئی نوکری کا ملنا اتنا آسان نہیں۔۔۔میں یہ نہیں کہتا کہ یہاں سے کہیں نہ جاؤ۔۔تم اپنی تلاش جاری رکھو لیکن جب تک کوئی اور نوکری نہیں ملتی یہاں ہی ٹکے رہو۔۔۔ہم سب تمھارے ساتھ ہیں۔۔۔۔
ان کی یہ بات سن کر مجھے کچھ ڈھارس ہوئی۔۔لیکن اس بلا کا خوف بدستور میرے سر پر سوار تھا۔۔۔اس رات وہ دوبارہ نہیں آئی۔۔۔۔اگلے دن میں خود کو بہت سمجھا بجھا کر آفس تک لایا۔۔۔ان صاحب کی یہ بات میرے دل کو بھی لگی تھی کہ اتنی جلدی پھر کوئی جاب ملنا آسان نہ تھا۔۔۔۔آج میں اپنے ساتھ قرآنی آیات کی ایک کتاب بھی لایا تھا۔۔۔تاکہ جب بھی وہ بلا آفس کا رُخ کرے میں ان آیات کا ورد شروع کر دوں۔۔۔۔
لیکن اتفاق یہ ہوا کہ آج کی رات آرام سے گزری اس بلا نے آج ہمارے آفس کا رخ نہیں کیا۔۔۔میں اپنے ان ہی کولیگ کے ساتھ بیٹھا ہو اتھا تو ذہن میں آیا کہ کیوں نہ ان سے اس بلا کے بارے میں تفصیلات لوں۔۔۔۔ جب میں نے ان سے پوچھا تو انھوں نے یہ کہانی بتائی۔۔۔۔۔۔۔۔
ہاں تو میں آپ کو بتا رہا تھا کہ رات کے بارہ بجتے ہی اچانک مجھے بڑی شدت سے گرمی کا احساس ہونے لگا۔۔۔پہلے تو میں سمجھا کہ میرا وہم ہے کیونکہ سی سی ٹی وی روم میں اے سی چل رہے تھے ۔۔لیکن جب میں نے ارد گرد نظر دوڑائی تو دیکھا میرے ساتھ کام کرنے والے تمام لوگ با آوازِبلند آیت الکرسی کا ورد کر رہے ہیں۔۔۔تب مجھے پہلی بار کسی خطرے کا احساس ہوا اور اس سے پہلے کہ میں کسی سے کچھ پوچھ پاتا۔۔۔۔اچانک کسی نے ہمارے آفس کا دروازہ زور زور سے کھٹکھٹانا شروع کر دیا۔۔۔۔اور ساتھ ہی ساتھ کسی لڑکی کے ہذیانی قہقہے سنائی دینے لگے۔۔۔۔مجھے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کیا کروں ۔۔۔کہاں جا چھپوں۔۔۔۔۔قہقہے اتنے خطرناک تھے کہ بیان سے باہر۔۔۔لگ رہا تھا کہ کوئی پوری شدت سے ہنستے ہنستے اچانک تکلیف میں کراہ رہا ہو۔۔۔
میں اور میرے ساتھ بیٹھے دیگر افراد اس وقت صرف مجسمہ لگ رہے تھے جن میں سے کسی نے جان کھینچ لی ہو۔۔۔۔ تھوڑی دیر تک یہ سلسلہ چلتا رہا۔۔۔پھر اچانک خاموشی چھا گئی۔۔۔۔۔جیسے ہی خاموشی کا یہ دورانیہ لمبا ہوا میں اپنے ان ہی کولیگ کے پاس گیا اور اس سے پہلے کہ میں ان سے کچھ پوچھتا۔۔۔وہ خود ہی کہنے لگے۔۔۔
’’ میاں تمھیں شاید میری بات پر یقین نہ آ رہا ہو۔۔لیکن اب تم کو پوری طرح یقین آ چکا ہو گا۔۔۔یہ عمارت اسی وجہ سے آسیبی مشہور ہے۔۔۔اور خاص طور پر اس کی تیرہویں منزل۔۔۔تم سے پہلے بھی اس آفس میں کئی لڑکے آئے لیکن اس بلا سے ڈر کر جاب چھوڑ کر چلے گئے۔۔۔ہم بوڑھے تو اس کے عادی ہو چکے ہیں۔۔۔۔۔اور پھر یہ بھی ہے کہ اس عمر میں ازسرِ نو نئی نوکری ڈھونڈنے کی خواری کون کرے۔۔۔‘‘ ان کی یہ بات سن کر میں نے کہا۔۔۔
’’ محترم میرا بھی آج اس آفس میں پہلا اور آخری دن ہے ۔۔۔۔میں ایسی نوکری کیسے کر سکتا ہوں جس میں مجھے جان کا خطرہ ہو۔۔۔‘‘ یہ سن کر وہ صاحب بولے۔۔۔
تم ڈرو نہیں ہمیں یہاں پر کئی سال ہو گئے ہیں۔۔۔لیکن آج تک یہاں کسی کو جانی نقصان نہیں ہوا۔۔وہ بلا ہم سب کو ڈراتی بھی ہے اور کبھی کبھی نظر بھی آ جاتی ہے۔۔لیکن نقصان آج تک کسی کو نہیں ہوا۔۔تم جذبات میں آ کر کوئی فیصلہ نہ کرو۔۔۔نئی نوکری کا ملنا اتنا آسان نہیں۔۔۔میں یہ نہیں کہتا کہ یہاں سے کہیں نہ جاؤ۔۔تم اپنی تلاش جاری رکھو لیکن جب تک کوئی اور نوکری نہیں ملتی یہاں ہی ٹکے رہو۔۔۔ہم سب تمھارے ساتھ ہیں۔۔۔۔
ان کی یہ بات سن کر مجھے کچھ ڈھارس ہوئی۔۔لیکن اس بلا کا خوف بدستور میرے سر پر سوار تھا۔۔۔اس رات وہ دوبارہ نہیں آئی۔۔۔۔اگلے دن میں خود کو بہت سمجھا بجھا کر آفس تک لایا۔۔۔ان صاحب کی یہ بات میرے دل کو بھی لگی تھی کہ اتنی جلدی پھر کوئی جاب ملنا آسان نہ تھا۔۔۔۔آج میں اپنے ساتھ قرآنی آیات کی ایک کتاب بھی لایا تھا۔۔۔تاکہ جب بھی وہ بلا آفس کا رُخ کرے میں ان آیات کا ورد شروع کر دوں۔۔۔۔
لیکن اتفاق یہ ہوا کہ آج کی رات آرام سے گزری اس بلا نے آج ہمارے آفس کا رخ نہیں کیا۔۔۔میں اپنے ان ہی کولیگ کے ساتھ بیٹھا ہو اتھا تو ذہن میں آیا کہ کیوں نہ ان سے اس بلا کے بارے میں تفصیلات لوں۔۔۔۔ جب میں نے ان سے پوچھا تو انھوں نے یہ کہانی بتائی۔۔۔۔۔۔۔۔
دس پندرہ سال پہلے کی بات ہے۔۔۔اس عمارت کی تیرہویں منزل پر ایک آفس
واقع تھا۔۔۔ سنتے ہیں کہ اس آفس میں کسی لڑکی کو قتل کر دیا گیا تھا۔۔۔اس کے
پیچھے کیا قصہ تھا اور کیا وجوہات تھیں یہ کوئی نہیں جانتا لیکن پھر اس
بات کے سب گواہ ہیں کہ وہ دن ہے اور آج کا دن ہے پھر وہ فلور کبھی آباد
نہیں ہو سکا۔۔۔۔آج تک کسی کی اتنی ہمت نہیں ہوتی کہ اس فلور پر جا
پائے۔۔۔حد تو یہ ہے کہ اس فلور پر لفٹ بھی نہیں روکی جاتی۔۔۔۔تم نے یہ بات
بھی نوٹ کی ہو گی کہ چھ بجتے ہی کوشش کی جاتی ہے کہ اس عمارت کو خالی کر
دیا جائے۔۔صرف سرویلینس کا عملہ ہی موجود ہوتا ہے۔۔۔۔اور ہم بھی یہ کوشش
کرتے ہیں کہ زیادہ تر وقت اپنے آفس میں ہی گزاریں۔۔۔۔بلا ضرورت آفس سے باہر
نہ نکلیں۔۔۔۔اور اگر کبھی جائیں بھی تو دو، دو کی ٹولی بناکر۔۔۔لیکن اس کے
باوجود بھی وہ ہمیں تنگ کرنے سے باز نہیں آتی ۔۔کبھی کچن میں پانی کے نل
خود بخود کھل جاتے ہیں۔۔۔۔اور کبھی عمارت کی لائٹس خود بخود کھلتی اور بند
ہوتی ہیں۔۔۔۔آج تک کوئی خاتون اس عمارت کے کسی بھی آفس میں شام ڈھلے تک
نہیں رکی ۔۔۔‘‘
وہ صاحب بنا رکے بولے جا رہے تھے اور میں، میں ہونقوں کی طرح انھیں سنے جا رہا تھا۔۔۔سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کیا کروں۔۔۔یہ جاب میری ضرورت تھی ۔۔۔اور زندگی سے مجھے محبت ہے۔۔۔۔فیصلہ نہیں کر پا رہا تھا کہ کس کو کس پر نثار کر دوں۔۔۔۔خیر آج کی رات تو آرام سے گزری اور یوں میں ایک اور رات اس آسیبی عمارت میں گزارنے کے لیے خود کو تیار کر چکا تھا۔۔۔
اس سے اگلی رات بھی خیر ہی رہی ۔۔۔۔اب تو میں خود کو بڑا مطمئن محسوس کر رہا تھا۔۔۔ سمجھ رہا تھا کہ وہ عفریت شاید اب یہاں سے جا چکی ہے ۔۔۔اور اب کبھی یہاں کا رخُ بھی نہیں کرے گی۔۔۔اس لیے شروع کے تین دنوں کی نسبت میں آج کچھ زیادہ ہی دلیری دکھا رہا تھا۔۔۔ایک دفعہ کچن میں اکیلا جا کر خود چائے بنا کر لایا۔۔۔اور اب ہوا خوری کے لیے باہر جانے کا سوچ ہی رہا تھا کہ اچانک سے پھر ہم سب کو گرمی لگنا شروع ہو گئی۔۔۔۔ان تین دنوں میں جتنی ہمت اکٹھی کی تھی سب دھری کی دھری رہ گئی۔۔۔۔ بس چند ثانیے ہی ہوئے تھے کہ پھر کسی نے زور زور سے دروازہ کھٹکھٹانا شروع کر دیا۔۔۔۔ پھر وہ ہی وحشیانہ قہقہے جو انسان کے جسم میں لہو سرد کر دیں۔۔۔۔اب کی بار ایک عجیب بات ہوئی ۔۔۔اس بار ایسا لگا جیسے قہقہوں کی یہ آوازیں انتہائی قریب سے آ رہی ہوں۔۔۔۔ایسا لگ رہا تھا کہ ہر قہقہے کے ساتھ دل کی دھڑکن رک رہی ہے۔۔۔اور جناتی قہقہے کے بعد واپس چل پڑتی ہے۔۔۔۔
اس وقت آفس میں موجود ہم پانچ چھ نفوس ایک دوسرے کی ہمت ہوتے ہیں۔۔۔کوئی اکیلا یہاں رہنے کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔۔۔۔الغرض یہ رات بھی اپنی تمام تر حشر سامانیوں کے ساتھ اختتام پذیر ہوئی۔۔۔۔کبھی کبھی مجبوری انسان سے سب کچھ کروا لیتی ہے۔۔ میں بھی کہیں اور جاب ملنے تک یہاں رہنے پر مجبور تھا۔۔۔۔مجھے یہاں کام کرتے ایک ماہ ہوگیا تھا۔۔۔اور تنخواہ ملنے کے بعد میں یہ سوچنے پر مجبور ہو گیا تھا کہ اگر بات صرف آوازوں تک رہتی ہے تو یہ نوکری اتنی بھی بری نہیں۔۔۔۔۔
اور پھر یہ دوسرے ماہ کی بات ہے ۔۔۔۔میں اپنے آفس سے نکل کر پارکنگ ایریا کا راؤنڈ لگا رہا تھا۔۔۔۔ہم اوپر سے آئے تو دو لوگ تھے لیکن اتفاق سے میرے ساتھ آنے والے بندے کو رفع حاجت کے لیے جانا پڑا۔۔۔ اب میں اکیلا تھا۔۔۔لیکن یہ میرا وہم تھا ۔۔۔۔میں وہاں اکیلا نہیں تھا۔۔۔مجھے ایسا لگا جیسے پارکنگ ایریا کے ایک ستون کے پیچھے کوئی موجود ہے۔۔۔مجھے لگا میرا وہ ہی ساتھی مجھے ڈرانے کی کوشش کر رہا ہے۔۔۔۔میں تھوڑا آگے بڑھا ۔۔۔اور پھر میری اوپر کی سانس اوپر اور نیچے ہی نیچے رہ گئی۔۔۔ستون کے پیچھے مجھے وہ عفریت کھڑی نظر آ گئی۔۔۔۔
اب بھی اگر سوچوں تو پورا جسم پسینے میں نہا جاتا ہے ۔۔۔مجھے سمجھ نہیں آتا کہ ایسا منظر دیکھنے کے باوجود بھی میں زندہ کیسے رہا۔۔۔۔۔ستون کے پیچھے کھڑی اس عفریت کو آج میں روبرو دیکھ رہا تھا کہ جس کی صرف آواز سن کراوسان خطا ہو جاتے تھے۔۔۔۔میرے ذہن میں ابھی بھی اس کا پورا سراپا محفوظ ہے۔۔۔۔سفید براق چوغہ نما لباس ۔۔۔بکھرے بے ترتیب بال۔۔۔پتلیوں سے خالی آنکھیں۔۔۔آنکھوں کی جگہ گڑھے تو موجود تھے لیکن پتلیاں ندارد۔۔۔صرف سفید ڈیلے تھے ۔۔۔۔جو باہر نکلنے کے لیے بے تاب تھے۔۔۔۔۔۔اور منہ ۔۔۔۔۔۔اف میرے خدا۔۔۔۔۔۔۔میں وہ منظر کیسے بھول پاؤں گا۔۔۔۔ اس کا منہ کسی غار سے مشابہ تھا۔۔۔۔آنکھوں کے بعد ایک خلاء سا تھا۔۔۔اور وہ خلاء کسی غار کی طرح گہرا اور سیاہ تھا۔۔۔۔مجھے سمجھ ہی نہیں آ رہا تھا کہ میں کیا کروں لگ رہا تھا کہ جیسے میرے قدم زمین نے جکڑ لیے ہیں۔۔۔۔اچانک سے بے پناہ گرمی کا احساس ہونے لگا۔۔۔لگ رہا تھا کہ ابھی جسم سے کھال اتر کر زمین پر بہنا شروع ہو جائے گی۔۔۔ایسا لگ رہا تھا کہ آس پاس موجود ہر شے دھواں بن گئی ہے۔۔۔ایک خلاء ہے جس میں صرف میں ہوں اور وہ عفریت ہے۔۔۔۔۔میرا دل میرے کانوں میں دھڑک رہا تھا۔۔۔۔
اس سے پہلے کہ میرا دل دھڑکنا بھول جاتا۔۔مجھے پیچھے سے اپنے کولیگ کی آواز سنائی دی۔۔۔۔اور شاید یہ ہی وہ لمحہ تھا جب میں موت سے ہم کنار ہوتے ہوتے بچ گیا تھا۔۔۔۔
ایک جھپاکے کے ساتھ اس بلا کا وجود ہوا میں تحلیل ہو گیا۔۔۔میرے ساتھی نے مجھے بے حس و حرکت کھڑا د یکھا تو پاس آ کر میرا کاندھا ہلا کر مجھے متوجہ کرنے کی کوشش کرنے لگا۔۔۔لیکن میں وہاں ہوتا تو اس کی بات سنتا۔۔۔۔۔میرے حواس تو اس عفریت کی ایک جھلک دیکھنے کے بعد ہی میرا ساتھ چھوڑ گئے تھے۔۔۔۔پتہ نہیں کہ مجھے سانس بھی آ رہا تھا یا نہیں۔۔۔۔۔میری حالت دیکھ کر میرا ساتھی سمجھ چکا تھا کہ میرے ساتھ کوئی مسئلہ ہوا ہے ۔۔۔وہ مجھے سہارا دے کر ہمارے آفس تک لایا۔۔۔۔میرے جن کولیگ نے مجھے اس عفریت کے بارے میں بتایا تھا اس نے انھیں میری حالت سے متعلق بتایا۔۔۔۔وہ مجھ سے کچھ کہنے لگے۔۔۔۔کبھی لگتا کچھ الفاظ کانوں تک پہنچ رہے ہیں لیکن دماغ ان کا مفہوم بنانے سے عاری ہے اور کبھی لگتا کہ کانوں میں صرف سائیں سائیں کی آوازیں ہی آ رہی ہیں۔۔۔۔
کافی دیر بعد میرے حواس بحال ہوئے۔۔۔۔تب میرے وہ ہی کولیگ گویا ہوئے۔۔۔
’’ میاں گھبراؤ نہیں۔۔۔ہم چھ سات لوگ تو اس کو دیکھ ہی چکے ہیں۔۔لیکن اب تک زندہ ہیں۔۔۔آج تم نے بھی دیکھ لیا۔۔۔میرا یقین کرو وہ صرف ڈراتی ہے ۔۔۔اس نے آج تک ہمیں کوئی نقصان نہیں پہنچایا ہے ۔۔۔بس تم ہر وقت قرآنی آیات کا ورد رکھو۔۔۔اللہ سب بہتر کرے گا۔۔۔
میں کیا جواب دیتا۔۔ابھی تک حواس معطل تھے۔۔۔۔بس جان بچ جانے پر اللہ کا شکر ادا کر رہا تھا۔۔۔۔پتہ نہیں وہ عفریت کون ہے۔۔اس کے ساتھ ایسا کیا ہو ا تھا۔۔۔۔کیوں اس کی روح ااج تک بھٹک رہی ہے۔۔۔آخر کب اسے اس تکلیف بھری اذیت سے چھٹکارہ ملے گا۔۔۔
بس پھر وہ دن ہے اور آج کا دن ہے۔۔۔مجھے یہاں کام کرتے آٹھ ماہ ہو گئے ہیں۔۔۔۔اب تک وہ نہ جانے کتنی بار ہمارے آفس کا چکر لگا چکی ہے۔۔۔۔اب تو یہ حال ہے کہ اگر دو لوگ بھی ایک ساتھ جائیں تو بھی نظر آ جاتی ہے۔۔۔۔کبھی کبھی تو کچن میں جانا بھی دوبھر ہو جاتا ہے ۔۔۔اور کبھی یہ لگتا ہے کہ گھر آ کر بھی وہ ہمارے ساتھ ہی ہے۔۔۔۔۔لیکن اب تک میں بھی اتنا پکا ہو چکا ہوں کہ اسی آفس میں ٹکا ہوا ہوں۔۔۔
وہ صاحب بنا رکے بولے جا رہے تھے اور میں، میں ہونقوں کی طرح انھیں سنے جا رہا تھا۔۔۔سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کیا کروں۔۔۔یہ جاب میری ضرورت تھی ۔۔۔اور زندگی سے مجھے محبت ہے۔۔۔۔فیصلہ نہیں کر پا رہا تھا کہ کس کو کس پر نثار کر دوں۔۔۔۔خیر آج کی رات تو آرام سے گزری اور یوں میں ایک اور رات اس آسیبی عمارت میں گزارنے کے لیے خود کو تیار کر چکا تھا۔۔۔
اس سے اگلی رات بھی خیر ہی رہی ۔۔۔۔اب تو میں خود کو بڑا مطمئن محسوس کر رہا تھا۔۔۔ سمجھ رہا تھا کہ وہ عفریت شاید اب یہاں سے جا چکی ہے ۔۔۔اور اب کبھی یہاں کا رخُ بھی نہیں کرے گی۔۔۔اس لیے شروع کے تین دنوں کی نسبت میں آج کچھ زیادہ ہی دلیری دکھا رہا تھا۔۔۔ایک دفعہ کچن میں اکیلا جا کر خود چائے بنا کر لایا۔۔۔اور اب ہوا خوری کے لیے باہر جانے کا سوچ ہی رہا تھا کہ اچانک سے پھر ہم سب کو گرمی لگنا شروع ہو گئی۔۔۔۔ان تین دنوں میں جتنی ہمت اکٹھی کی تھی سب دھری کی دھری رہ گئی۔۔۔۔ بس چند ثانیے ہی ہوئے تھے کہ پھر کسی نے زور زور سے دروازہ کھٹکھٹانا شروع کر دیا۔۔۔۔ پھر وہ ہی وحشیانہ قہقہے جو انسان کے جسم میں لہو سرد کر دیں۔۔۔۔اب کی بار ایک عجیب بات ہوئی ۔۔۔اس بار ایسا لگا جیسے قہقہوں کی یہ آوازیں انتہائی قریب سے آ رہی ہوں۔۔۔۔ایسا لگ رہا تھا کہ ہر قہقہے کے ساتھ دل کی دھڑکن رک رہی ہے۔۔۔اور جناتی قہقہے کے بعد واپس چل پڑتی ہے۔۔۔۔
اس وقت آفس میں موجود ہم پانچ چھ نفوس ایک دوسرے کی ہمت ہوتے ہیں۔۔۔کوئی اکیلا یہاں رہنے کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔۔۔۔الغرض یہ رات بھی اپنی تمام تر حشر سامانیوں کے ساتھ اختتام پذیر ہوئی۔۔۔۔کبھی کبھی مجبوری انسان سے سب کچھ کروا لیتی ہے۔۔ میں بھی کہیں اور جاب ملنے تک یہاں رہنے پر مجبور تھا۔۔۔۔مجھے یہاں کام کرتے ایک ماہ ہوگیا تھا۔۔۔اور تنخواہ ملنے کے بعد میں یہ سوچنے پر مجبور ہو گیا تھا کہ اگر بات صرف آوازوں تک رہتی ہے تو یہ نوکری اتنی بھی بری نہیں۔۔۔۔۔
اور پھر یہ دوسرے ماہ کی بات ہے ۔۔۔۔میں اپنے آفس سے نکل کر پارکنگ ایریا کا راؤنڈ لگا رہا تھا۔۔۔۔ہم اوپر سے آئے تو دو لوگ تھے لیکن اتفاق سے میرے ساتھ آنے والے بندے کو رفع حاجت کے لیے جانا پڑا۔۔۔ اب میں اکیلا تھا۔۔۔لیکن یہ میرا وہم تھا ۔۔۔۔میں وہاں اکیلا نہیں تھا۔۔۔مجھے ایسا لگا جیسے پارکنگ ایریا کے ایک ستون کے پیچھے کوئی موجود ہے۔۔۔مجھے لگا میرا وہ ہی ساتھی مجھے ڈرانے کی کوشش کر رہا ہے۔۔۔۔میں تھوڑا آگے بڑھا ۔۔۔اور پھر میری اوپر کی سانس اوپر اور نیچے ہی نیچے رہ گئی۔۔۔ستون کے پیچھے مجھے وہ عفریت کھڑی نظر آ گئی۔۔۔۔
اب بھی اگر سوچوں تو پورا جسم پسینے میں نہا جاتا ہے ۔۔۔مجھے سمجھ نہیں آتا کہ ایسا منظر دیکھنے کے باوجود بھی میں زندہ کیسے رہا۔۔۔۔۔ستون کے پیچھے کھڑی اس عفریت کو آج میں روبرو دیکھ رہا تھا کہ جس کی صرف آواز سن کراوسان خطا ہو جاتے تھے۔۔۔۔میرے ذہن میں ابھی بھی اس کا پورا سراپا محفوظ ہے۔۔۔۔سفید براق چوغہ نما لباس ۔۔۔بکھرے بے ترتیب بال۔۔۔پتلیوں سے خالی آنکھیں۔۔۔آنکھوں کی جگہ گڑھے تو موجود تھے لیکن پتلیاں ندارد۔۔۔صرف سفید ڈیلے تھے ۔۔۔۔جو باہر نکلنے کے لیے بے تاب تھے۔۔۔۔۔۔اور منہ ۔۔۔۔۔۔اف میرے خدا۔۔۔۔۔۔۔میں وہ منظر کیسے بھول پاؤں گا۔۔۔۔ اس کا منہ کسی غار سے مشابہ تھا۔۔۔۔آنکھوں کے بعد ایک خلاء سا تھا۔۔۔اور وہ خلاء کسی غار کی طرح گہرا اور سیاہ تھا۔۔۔۔مجھے سمجھ ہی نہیں آ رہا تھا کہ میں کیا کروں لگ رہا تھا کہ جیسے میرے قدم زمین نے جکڑ لیے ہیں۔۔۔۔اچانک سے بے پناہ گرمی کا احساس ہونے لگا۔۔۔لگ رہا تھا کہ ابھی جسم سے کھال اتر کر زمین پر بہنا شروع ہو جائے گی۔۔۔ایسا لگ رہا تھا کہ آس پاس موجود ہر شے دھواں بن گئی ہے۔۔۔ایک خلاء ہے جس میں صرف میں ہوں اور وہ عفریت ہے۔۔۔۔۔میرا دل میرے کانوں میں دھڑک رہا تھا۔۔۔۔
اس سے پہلے کہ میرا دل دھڑکنا بھول جاتا۔۔مجھے پیچھے سے اپنے کولیگ کی آواز سنائی دی۔۔۔۔اور شاید یہ ہی وہ لمحہ تھا جب میں موت سے ہم کنار ہوتے ہوتے بچ گیا تھا۔۔۔۔
ایک جھپاکے کے ساتھ اس بلا کا وجود ہوا میں تحلیل ہو گیا۔۔۔میرے ساتھی نے مجھے بے حس و حرکت کھڑا د یکھا تو پاس آ کر میرا کاندھا ہلا کر مجھے متوجہ کرنے کی کوشش کرنے لگا۔۔۔لیکن میں وہاں ہوتا تو اس کی بات سنتا۔۔۔۔۔میرے حواس تو اس عفریت کی ایک جھلک دیکھنے کے بعد ہی میرا ساتھ چھوڑ گئے تھے۔۔۔۔پتہ نہیں کہ مجھے سانس بھی آ رہا تھا یا نہیں۔۔۔۔۔میری حالت دیکھ کر میرا ساتھی سمجھ چکا تھا کہ میرے ساتھ کوئی مسئلہ ہوا ہے ۔۔۔وہ مجھے سہارا دے کر ہمارے آفس تک لایا۔۔۔۔میرے جن کولیگ نے مجھے اس عفریت کے بارے میں بتایا تھا اس نے انھیں میری حالت سے متعلق بتایا۔۔۔۔وہ مجھ سے کچھ کہنے لگے۔۔۔۔کبھی لگتا کچھ الفاظ کانوں تک پہنچ رہے ہیں لیکن دماغ ان کا مفہوم بنانے سے عاری ہے اور کبھی لگتا کہ کانوں میں صرف سائیں سائیں کی آوازیں ہی آ رہی ہیں۔۔۔۔
کافی دیر بعد میرے حواس بحال ہوئے۔۔۔۔تب میرے وہ ہی کولیگ گویا ہوئے۔۔۔
’’ میاں گھبراؤ نہیں۔۔۔ہم چھ سات لوگ تو اس کو دیکھ ہی چکے ہیں۔۔لیکن اب تک زندہ ہیں۔۔۔آج تم نے بھی دیکھ لیا۔۔۔میرا یقین کرو وہ صرف ڈراتی ہے ۔۔۔اس نے آج تک ہمیں کوئی نقصان نہیں پہنچایا ہے ۔۔۔بس تم ہر وقت قرآنی آیات کا ورد رکھو۔۔۔اللہ سب بہتر کرے گا۔۔۔
میں کیا جواب دیتا۔۔ابھی تک حواس معطل تھے۔۔۔۔بس جان بچ جانے پر اللہ کا شکر ادا کر رہا تھا۔۔۔۔پتہ نہیں وہ عفریت کون ہے۔۔اس کے ساتھ ایسا کیا ہو ا تھا۔۔۔۔کیوں اس کی روح ااج تک بھٹک رہی ہے۔۔۔آخر کب اسے اس تکلیف بھری اذیت سے چھٹکارہ ملے گا۔۔۔
بس پھر وہ دن ہے اور آج کا دن ہے۔۔۔مجھے یہاں کام کرتے آٹھ ماہ ہو گئے ہیں۔۔۔۔اب تک وہ نہ جانے کتنی بار ہمارے آفس کا چکر لگا چکی ہے۔۔۔۔اب تو یہ حال ہے کہ اگر دو لوگ بھی ایک ساتھ جائیں تو بھی نظر آ جاتی ہے۔۔۔۔کبھی کبھی تو کچن میں جانا بھی دوبھر ہو جاتا ہے ۔۔۔اور کبھی یہ لگتا ہے کہ گھر آ کر بھی وہ ہمارے ساتھ ہی ہے۔۔۔۔۔لیکن اب تک میں بھی اتنا پکا ہو چکا ہوں کہ اسی آفس میں ٹکا ہوا ہوں۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ختم شُد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ذیل میں جو وڈیو پیش کی جا رہی ہے وہ ایک ایسی ہی رات کی ہے جب وہ باہر کھڑی دروازہ بجا بجا کر قہقہے لگا رہی تھی۔۔۔۔۔
اگر کسی کو اس کہانی میں ذرہ برابر بھی جھوٹ کی آمیزش لگ رہی ہے تو ہماری طرف سے اسے کھلی پیشکش ہے کہ وہ بذات خود آکر اس عمارت میں اس عفریت کے ہونے کا یقین کر سکتا ہے۔۔۔۔۔
اگر کسی کو اس کہانی میں ذرہ برابر بھی جھوٹ کی آمیزش لگ رہی ہے تو ہماری طرف سے اسے کھلی پیشکش ہے کہ وہ بذات خود آکر اس عمارت میں اس عفریت کے ہونے کا یقین کر سکتا ہے۔۔۔۔۔
انتباہ۔۔۔۔۔۔۔۔
براہ مہربانی کمزور دل افراد اس کہانی کے ساتھ منسلک وڈیو کو دیکھنے سے گریز کریں۔۔ورنہ نتائج کے ذمہ دار ہم نہ ہوں گے
0 Comments